Thursday 19 January 2012

خوش آمدید ماہ مکرم

پہلا پیغام 
خوش آمدید  ماہ مکرم

محترم حضرات: سب سے پہلے ہمیں اللہ رب العالمین کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جس نے ہمیں ماہ رمضان تک پہونچایا، پھر نبی آخر الزماں محمد مصطفی ﷺپر درود و سلام بھیجنا چاہےئے جن کی بعثت سے رمضان کریم جیسا قیمتی موسم نصیب ہوا، اللہم صل علی نبینا محمد وبارک علیہ وسلم تسلیما کثیرا۔
امت محمدیہ ایک ایسے موسم کو خوش آمدید کہہ رہی ہے، اس کے تقاضوں پر لبیک کہہ رہی ہے، جو سال میں ایک مرتبہ سایہ فگن ہوتا ہے،مسرت اور شادمانی کے ساتھ ہم ماہ مکرم کا استقبال کرتے ہیں، خوشنودئ رب کے حصول کے لئے اپنی کمر کس لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا تھا، تاکہ تم متقی و پرہیز گار بن جاؤ‘‘۔(البقرۃ: ۱۸۳)
اللہ کے نبی ﷺ کا ارشاد ہے: جس نے رمضان کے روزے ایمان (روزے کی فرضیت پر اعتقاد) اور احتساب (اللہ سے ثواب کی امید) کے ساتھ رکھے، اس کے پچھلے گناہ بخش دئے جائیں گے ۔(بخاری، مسلم)۔ دوسری روایت میں اللہ کے نبی ﷺ کا ارشاد ہے: ’’ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے‘‘(بخاری) تیسری روایت میں رمضان کا اجر و ثواب دیکھئے: نبی ﷺ فرماتے ہیں: پانچوں نمازیں اور ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک گناہوں کو مٹا دینے والے ہیں جب کہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے‘‘(مسلم)
رمضان عربی لفظ جو رمضاء سے ماخوذ ہے جس کا معنیٰ شدید گرمی کے ہیں، اور یہ مہینہ نیکیوں کے ذریعے بندوں کے گناہوں کو جلا دیتا ہے، اسی لئے اس ماہ کا نام رمضان پڑا، بعض نے بھوک اور پیاس کی شدت کو رمضان سے تعبیر کیاہے۔
رمضان نام ہے اس ایمانی باد بہاری کا، جو خصوصیت کے ساتھ سال میں ایک بار چلتی ہے، رمضان ان ربانی خوشبوؤں کا نام ہے جو عالم ارضی پر بکھیر دی جاتی ہیں، رمضان اس آسمانی وسیع تر طبق کا نام ہے جو زمین والوں پر روشن ہوکر اللہ کی صفت عطف ورحمت کا بے مثل نمونہ پیش کرتا ہے، اب یہ ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہیں کہ ہم اللہ کی خوشبوؤں سے اپنا دامن کس قدر بھرتے ہیں۔
رمضان کا یہ مہینہ وقتی ہاسپٹل ہے جہاں ہر مریض اپنی بیماری کی دوا پالیتا ہے، بخیل احسان کے ذریعے، موٹاپا کے مریض بھوک اور پیاس کے ذریعے اور فاقہ کش آسودگی کے ذریعے شفا پاتا ہے، اس کے علاوہ دوسری بیماریاں دواؤں کے ساتھ دعاؤں اور اذکار و اوراد سے دور ہوجاتی ہیں۔
یہ مبارک ماہ دلوں پر تجلیات رحمانی کی بارش کرتا ہے، مواعظ حسنہ کے ذریعے نفسوں کے تزکیہ کا اس سے بہتر موسم اور کیا ہوسکتا ہے، بھلائیوں پر اکسانے والا یہ مہینہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم سخاوت و بھلائیوں میں تیز آندھی ہوجائیں اور برائیوں سے اپنے آپ کو اس طرح دور کرلیں جیسے ایک شیر خوار بچہ کو برائی سے کوئی نسبت نہیں ہوتی۔آئیے اس ماہ کا استقبال اس عزم کے ساتھ کریں کہ اس پورے مہینے کو صیام و قیام اورنیک اعمال سے پُر کردیں گے۔ ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق سے نوازے۔ آمین۔

تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ

دوسرا پیغام
                             
تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ
محترم اسلامی بھائیو! رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہوچکا ہے، یہ مہینہ ہمیں بہت سارے دروس دیتا ہے، ان میں سب سے بڑا درس تقویٰ و پرہیز گاری کا درس ہے، تقویٰ مومن کا بہترین لباس ہے اس کا بہترین توشہ ہے، مصیبت کے وقت اس کا بہترین ساتھی ہے، اس کے صبر و سکون کی جگہ ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ کی وصیت ہے تمام بنی آدم کے لئے۔
تقویٰ کی حقیقت یہ ہے کہ آپ کوئی بھی کام کریں جس سے اللہ کی اطاعت ثابت ہو اور آپ اس کام پر اللہ سے ثواب کی امید رکھیں، نیز اللہ کے عقاب کے خوف سے ہر اس کام کو چھوڑ دیں جس سے اللہ نا خوش ہوتا ہے۔
روزہ دارو! بندے کا تقوی اس وقت مکمل ہوجاتا ہے جب وہ جان لے کہ ہمیں کن چیزوں سے بچنا چاہئے اور وہ پھر اس پر عمل پیرا ہوجائے، چنانچہ یہ مہینہ ہمیں تقوی سیکھنے اور متقی بننے کی ترغیب بھی دیتا ہے، اس لئے کہ تقویٰ ہی ہمارے روزوں کی حکمت ہے اور قرآن عظیم اس مہینہ کو تقوی کے نام سے موسوم کرکے اعلان کررہا ہے: ’’اے مومنو! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم متقی و پرہیز گار بن جاؤ‘‘ (البقرہ:۱۸۳)۔
شیخ عبدالرحمن سعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: روزہ تقوی کے بڑے اسباب میں سے ہے،اس لئے کہ بندہ روزے کی حالت میں اللہ کا حکم بجالاتا ہے، منکرات سے بچتا ہے، وہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے جس کی طرف انسانی طبیعت فطری میلان رکھتی ہے، جیسے کھانا،پینا، جماع وغیرہ، آخرکیوں؟ اس لئے کہ بندہ اللہ کی قربت کی چاہ اور اس سے ثواب کی امید رکھتا ہے اوریہی تقوی کہلاتا ہے۔
روزہ دار اس ماہ مبارک میں اپنے نفس کی تربیت چاہتاہے،اسے اللہ کی نگرانی کا ہمہ وقت خیال رہتا ہے اور نفسانی خواہشات کو قربان کردیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔
روزہ شیطان کے راستوں کو تنگ کردیتا ہے، اگرچہ وہ انسان کے ساتھ اس طرح لگا رہتا ہے جس طرح رگوں میں خون دوڑتا ہے، اس کے باوجود اس کا زور ٹوٹ جاتا ہے اور روزہ دار سے گناہوں کا ارتکاب کم ہوجاتاہے۔
روزہ دار بندہ اللہ کی اطاعت میں منہمک ہوجاتاہے، اللہ کی فرمانبرداری اس کا نصب العین بن جاتا ہے اور یہ جذبۂ اطاعت انسان کو پرہیز گار بناتی ہے، روزے کی حالت میں مالدار شخص کو جب بھوک کا درد ستائے تو اس پر واجب ہے کہ فقیروں اور ضرورت مندوں کو یاد کرے، ان کی خبر گیری کرے جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا، یہ بھی تقوی کی صفت ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو معصیت سے بچائے اور پرہیزگار و متقی بنائے۔ آمین

روزہ ڈھال ہے

تیسرا پیغام
                                                        
روزہ ڈھال ہے
محترم حضرات! اللہ رب العزت نے اس روزہ کو بہت ساری چیزوں سے نجات کا ذریعہ بنادیا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال اور آڑ ہے، پس کوئی شخص شہوت نفس کا کام نہ کرے، جاہلوں کی عادت وطریقہ کو نہ اپنائے اور نہ ہی شوروشغب برپا کرے‘‘ (بخاری، مسلم)
دوسری روایت میں اضافہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے اسی طرح جس طرح تم لڑائی کے وقت ڈھال کا استعمال کرتے ہو‘‘۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ہر وہ چیز جو انسان کے لئے آڑ،ستر یا بچاؤ کا کام کرے وہ ڈھال ہے،محدث ابن العربی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:روزہ جہنم کے لئے ڈھال اس لئے ہے کیونکہ انسان اپنے آپ کو نفسانی خواہشات و شہوات سے روکے رکھتا ہے اور جہنم شہوات سے گھیردی گئی ہے تو جو شخص شہوت نفس یا حرام لذتوں سے دنیا میں پرہیز کرے گا، آخرت میں جہنم اس کے لئے آڑ بن جائے گی۔(فتح الباری۴؍۱۰۴)
معلوم ہوا کہ روزہ کی حالت میں انسان کو اپنے نفس پر کنٹرول رکھنا چاہئے، جہالت بھرے کام ، شہوت، لڑائی جھگڑا اور گالی گلوچ سے پرہیز کرنا چاہئے، غیبت، چغلی اور ریاکاری سے بچنا چاہئے، تاکہ ہم سب کے لئے جہنم آڑ بن جائے اور اللہ کے روزہ دار بندے بآسانی جنت میں داخل ہوسکیں۔
حدیث میں روزہ دار کو جن چیزوں سے روکا گیا ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ عداوت ، تعصب اور شہوت نفس کو دعوت نہ دے، لیکن اگر مسئلہ سنگین ہو، آپ حق پر ہوں ، فریق مخالف آپ پر زیادتی کئے جارہا ہو، ایسی صورت میں آپ اس کی باتوں اور لڑائی کا مؤثر جواب دے سکتے ہیں،اس لئے کہ مقصد انصاف اور حق کی سربلندی ہے، مگر یاد رہے گالی گلوچ کا جواب گالی سے نہیں دیں گے اور مندرجہ ذیل حدیث کو یاد رکھیں گے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے،اس کے لئے جائزنہیں کہ وہ اپنے بھائی کو رسوا کرے، اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھے، اس پر ظلم ڈھائے، تقویٰ تو یہاں ہے، آپ ﷺ نے تین مرتبہ اپنے سینۂ مبارک کی طرف اشارہ کیا، ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت وآبرو سے کھلواڑ حرام ہے۔(مسلم)
اخیر میں اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے روزوں کی حفاظت کی توفیق عطا کرے۔ (آمین)

میں روزے سے ہوں

چوتھاپیغام
                                                 
میں روزے سے ہوں
محترم حضرات! روزے کا یہ مہینہ ہمیں صبر، بردباری اور برائی کا جواب بھلائی سے دینے کی تعلیم دیتا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو، تو اس روزہ دارکو چاہئے کہ وہ لعن طعن، گالی گلوچ، چیخ پکار اور شور شرابہ جیسے کام ہرگز نہ کرے، اگر روزہ دار کو کوئی دوسرا شخص گالی دے یا جھگڑے پر آمادہ کرے تو روزہ دار کہے’’میں روزے سے ہوں‘‘ ۔ (بخاری، مسلم)
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں : بعض سلف کی رائے ہے کہ جب روزہ دا رسے کوئی شخص گالی گلوچ یا جھگڑا پر آمادہ ہو تو روزہ داربلند آواز سے یہ جملہ’’میں روزے سے ہوں‘‘کہے اس سے مخالف کے خاموش ہونے کی زیادہ امید ہے،یا اپنے نفس کو سمجھائے کہ میں روزے سے ہوں، اس کے گالی گلوچ میں کیوں پڑوں بلکہ اپنا راستہ ہی بدل لوں اور اپنے روزے کو آلودگی سے محفوظ رکھوں۔
اس حدیث سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ روزے کے علاوہ ایام میں گالی گلوچ، لڑنا جھگڑنا جائز ہے،یہ ناجائز ہے ہر حال میں، یہاں روزے کے ساتھ اس ممانعت کی تاکید کی گئی ہے کہ روزے کی حالت میں بندہ اس کے قریب بھی نہ پھٹکے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ دار کو غصہ پی جانا چاہئے، گفتگوکے آداب کا خیا ل رکھنا چاہئے اور ہر حال میں زبان کی حفاظت کرنی چاہئے، اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے: جو اپنے دونوں رخساروں کے بیچ (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے بیچ (شرمگاہ) کی ضمانت دے دے ، میں اسے جنت کی گارنٹی دیتا ہوں(بخاری)۔
حضرت اکثم بن صیفی کہتے ہیں: انسان کی زبان اس کی قتل گاہ ہے، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا:پاؤں پھسلنے سے ہڈی کی چوٹ صحیح ہوسکتی ہے مگر زبان کی لغزش انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔
روزہ دارو! معلوم ہوا کہ ہم جو کچھ بھی بولیں سوچ کر بولیں، زبان سے غلط جملے اور فقرے نہ نکالیں، ایک دوسرے کو مخاطب کرتے وقت ادب کے جامے میں رہیں، ہماری بات سے کسی کو تکلیف نہ پہونچے، ورنہ ہمارے روزوں کا ثواب گھٹ جائے گا، آئیے کو شش کریں اس جنت کے حصول کے لئے جس کی بشارت نبیﷺ نے دی ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو روزہ کے آداب کی رعایت کی توفیق بخشے۔

اللہ کو ایسے روزے پسند نہیں

پانچواں پیغام
                                             
اللہ کو ایسے روزے پسند نہیں
محترم حضرات! ہم روزہ رکھ کر اگر ایسے کام کریں جو اللہ کے غضب وناپسندیدگی کا سبب بنتے ہوں، پھر ہمارے روزوں کا کیا ہوگا؟ حدیث نبوی دیکھئے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: جو شخص جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو ایسے بندے اور روزے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ بیٹھے۔ (بخاری، مسلم)
اس کا مطلب ہے کہ ہمارا روزہ قبول نہیں ہوگا یا اس کا اجر وثواب ضائع ہوجائے گا، اگر ہم نے جھوٹ ، لغو اور بیہودہ چیزوں میں اپنا وقت ضائع کیا۔ علماء نے لکھا ہے: کہ حدیث میں لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جھوٹ اور اس کے متعلقات سے بچیں، اللہ نہ کرے اگر آپ سے کوئی جھوٹ سرزد ہوجائے تو اس کی وجہ سے اپنا روزہ ترک کردیں۔
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: حدیث میں روزہ کی عدم قبولیت کی طرف اشارہ ہے جیسے کوئی مالک اپنے ملازم سے کوئی کام کرنے کو کہے اور وہ اس طرح نہ کرے جس طرح کہا تھا، تو مالک غصہ ہو جائے گا اور کہے گا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے تو جھوٹ کے مقابل اس کا روزہ ضائع کردیا جائے گا اور جو سالم حصہ بچے گا اسے قبول کرلیا جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے: اللہ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہونچتا ، بلکہ تمہارا تقوی پہونچتا ہے، ظاہر ہے کہ اگر اس کی رضا کے مطابق کام نہیں ہوا تو پھر قبو ل کہاں سے ہوگا۔
مشہور مفسر علامہ بیضاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: روزہ کی فرضیت کا مقصد یہ نہیں کہ انسان کو بھوکا اور پیاسا رکھا جائے ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ اس کی نفسانی شہوت کا زور ٹوٹ جائے اور بندہ اپنے نفس امارہ (برائیوں پر آمادہ کرنے والا) کو ترک کرکے نفس مطمئنہ (نیکیوں پر اکسانے والا) کی طرف راغب ہو جائے، اب اس کے بعد بھی روزہ کا مقصد حاصل نہ ہو تو اللہ اس کے روزے کو قبولیت کی نگاہ سے ہرگز نہیں دیکھے گا۔
معلوم ہوا کہ جھوٹ ایک مذموم شئی ہے، کفر ونفاق کی خصلت ہے اورانسان کو اس کے بلند مرتبے سے گرادیتا ہے، عزت کی رفعتوں سے حقارت و ذلت کے گڈھوں میں انسان کو پھینک دیتا ہے، اللہ کے نبیﷺ فرماتے ہیں: لوگو! جھوٹ سے بچو، اس لئے کہ یہ برائیوں کی طرف لے جاتا ہے اور برائی انسان کو جہنم میں لے جاتی ہے، ایک شخص جو برابر جھوٹ پر جھوٹ بولتا رہتا ہے،اللہ کے یہاں اسے کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(بخاری،مسلم)
حضرت حسن بصر ی رحمہ اللہ کہتے ہیں: کہ جھوٹ نفاق کی جڑ ہے،حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے بعض گورنروں کو لکھا تھا: جھوٹ کا سہارا ہرگز مت لینا، اگر جھوٹ کی آمیزش کروگے ہلا ک وبرباد ہو جاؤگے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں لغویات سے بچائے اور اپنی زبانوں کی حفاظت کی توفیق عطا کرے(آمین)

سحری اور افطار

چھٹا پیغام
                                                               
سحری اور افطار

محترم حضرات! رمضان کی اس بابرکت فضا میں اگر سحری اور افطا ر کا ذکر نہ ہو تو روزے کا لطف بے مزہ ہوجائے گا، آئیے اس کی فضیلت و اہمیت ملاحظہ کرتے ہیں:
سحری کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: سحری کھاؤ اس لئے کہ اس میں برکت ہے (بخاری ، مسلم) اس حدیث میں مسلمانوں کو سحری کھانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ وہ روزے کے لئے اپنے آپ کو تیار کر سکیں اور اللہ کی برکت کے مستحق ہوں، یاد رہے برکت انسان کو اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے، دیکھنے میں یہ بات آتی ہے کہ کچھ لوگ سحری کو کوئی حیثیت نہیں دیتے، آدھی رات کو ہی کھا لیتے ہیںیا وہ نیند کے رسیا ہوتے ہیں یا اس کی برکتوں سے ناواقف ہوتے ہیں، یہ سنت کی مخالفت ہے، لہٰذا ہر روزہ دار کو سحری کا اہتمام کرنا چاہئے اور فجر سے کچھ پہلے اٹھ کر سحری کرنی چاہئے، حضرت سہل بن سعدؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ اس وقت تک بھلائی میں رہیں گے جب تک افطار جلدی اور سحری میں تاخیر کرتے رہیں گے۔ (بخاری، مسلم)، افطار کے جلدی کا مطلب یہ ہے کہ سورج ڈوبے ،آپ افطار کرلیں، سیاہی کے پھیلنے کا انتظار نہ کریں اور سحری فجر (صبح صادق) کے وقت سے پہلے (یعنی رات کے آخری لمحات میں) کرنی چاہئے تاکہ فجر کی نماز جماعت سے ادا کرسکیں۔
سحری مسلمانوں کا شعار ہے اور یہود ونصاریٰ کی مخالفت، جیسا کہ نبیﷺ کا ارشاد ہے: ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق کرنے والی چیز سحری ہے (مسلم)۔
سحری میں آدمی کچھ بھی کھائے لیکن افطار کے متعلق رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو کھجور سے شروع کرے، کھجور دستیاب نہ ہو تو پانی سے افطار کرے، اس لئے کہ وہ پاک شئی ہے۔ (احمد،ترمذی،ابوداؤد)
بعض لوگ افطار میں سنت کی پیروی نہیں کرتے، انہیں دسترخوان پر جو مرغوب غذا نظر آئی، اسی سے شروع کردیا، حالانکہ اب کھجور و چھوہارے کی متعدد اقسام تقریبا دنیا کے سبھی خطہ میں پائی جاتی ہیں، لہٰذا اس کا اہتمام نہ کرنا بھی خلاف سنت ہے، اگر بازار میں دستیاب نہیں یا خریدنے کی طاقت نہیں تو ایسی صورت میں پانی سے افطار کرنا مستحب ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: روزے کی حالت میں معدہ جب غذا سے خالی ہوتا ہے، تو اس میں پہونچنے والی میٹھی چیز کھجور وغیرہ کلیجہ کو تقویت بخشتی ہے، کلیجہ بہت تیزی سے اس کی مٹھاس کوجذب کرکے جسم کے دوسرے حصوں کو مضبوطی عطا کرتا ہے اورپانی معدے کی حرارت و جلن کو ختم کردیتا ہے۔
سحری سے پہلے دل میں روزے کی نیت کر لینی ضروری ہے، نیز افطار کے وقت خوب دعائیں مانگنی چا ہئے، اور بسم اللہ کے ذریعہ افطار کرنا چاہئے۔
اللہ تعالی ہمیں سنت کے مطابق سحری و افطار کی توفیق بخشے۔(آمین)