Saturday 17 September 2011

استغفار پر مہر لگادیں

اڑتیسواں پیغام
استغفار پر مہر لگادیں 
محترم حضرات!ابو ہریرہؓ ایک معروف جلیل القدر صحابی گزرے ہیں، سب سے زیادہ حدیثیں انہی کے واسطے منقول ہیں، ایک مرتبہ وہ رمضان کی فضیلت بیان کررہے تھے کہ اس ماہ ہر شخص بخش دیا جاتا ہے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے انکار کیا‘‘ ان کے ساتھیوں نے پوچھا: ابو ہریرہ یہ انکار کرنے والے کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا، جس نے اللہ سے مغفرت طلب نہیں کی۔
روزہ دارو! استغفار کہتے ہیں، بخشش چاہنا، خطاؤں کی پردہ پوشی اور اسکے شر سے راحت طلب کرناآپ دیکھیں استغفار پر تمام نیک اعمال کا خاتمہ ہوتا ہے، ہم نماز کو، تراویح کو، حج کو اور تمام دینی مجالس کو اللہ کی مغفرت طلب کرتے ہوئے ختم کرتے ہیں، یہ استغفار ہی ہے جس کے ذریعے اللہ بندوں کے درجات بلند فرماتا ہے، اور بڑی سے بڑی سزاؤں کا نفاذ روک دیتا ہے۔ نبی اکرمﷺ جب دعوت وجہاد سے فارغ ہوئے اور لوگ اسلام میں فوج درفوج داخل ہونے لگے اس وقت حکم ہوا کہ آپ ﷺ استغفار کریں، لہٰذا بندے کے ہر نیک عمل کا اختتام استغفار پر ہی ہونا چاہئے، اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ ماہ رمضان کا اختتام بھی استغفار کے ذریعے ہو، جو ہمارے روزوں کی تکمیل وقبولیت کا واحد ذریعہ ہے۔
ابو ہریرہؓ کا کہنا ہے کہ غیبت روزوں کو پھاڑ دیتی ہے، اور استغفار اس پر پیوند لگاتا ہے، خلیفۂ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے تمام شہرکے گورنروں کو لکھا کہ’’ماہ رمضان کا اختتام استغفار اور صدقۂ فطر پر ہو‘‘۔
روزہ دارو! استغفار کے بے شمار فضائل ہیں، اس سے جہاں گناہ معاف ہوتے ہیں، وہیں استغفار کے ذریعے اللہ تعالیٰ بارش کا نزول فرماتا ہے، مال و دولت کے ساتھ اولاد جیسی عظیم نعمت بھی عطا کرتا ہے: اللہ فرماتا ہے:’’پس میں نے کہا کہ اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کرو وہ نہایت بخشنے والا ہے، آسمان سے بارش کی بدلیاں برسائے گا، تمہیں مال و اولاد سے نوازے گا اور تمہارے لئے باغات اور نہریں بنا دے گا‘‘( نوح: ۱۰۔۱۲ ) ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں: خوش نصیب ہے وہ شخص جس کا نامۂ اعمال کثرت استغفار سے بھرا ہوگا ۔ روزہ دارو! استغفار کے الفاظ کئی طرح سے ہوسکتے ہیں لیکن سید الاستغفار جسے نبی ﷺ صحابہ کو سکھایا وہ ہر طرح سے جامع ہے’’ اللّٰہم أنتَ رَبِّی لا الٰہَ الَّا أنت خَلقْتَنِی و أنَا عَبْدُکَ وانا علی عَھْدِکَ ووعدک ماسْْتَطعْتُ، أعوذ بک من شرِّما صنعتُ، أبوءُ لک بنعمتک علیَّ واَبوءُ بِذَنْبِي، فَاغْفِرْ لِي فاِ نَّہُ لا ےَغْفِرُ الذُّنُوبَ الاَّ أنتَ جس نے یہ دعا صبح پڑھی اور شام سے پہلے انتقال ہوگیا وہ جنت میں داخل ہوگیا، جس نے شام کے وقت پڑھی اور صبح سے پہلے اس کا انتقال کرگیا تو وہ جنت میں داخل ہوگیاَ (ترمذي)دوسری اور آسان دعا جس کے پڑھنے پر اللہ اسے بخش دیتا ہے: أسْتَغْفِرُ اللّٰہُ الَّذِی لا الٰہَ الا ہوالحَیُّ القَیُّومُ و أتوبُ الیہ (ابو داؤد) اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم تمام مسلمانوں کو کثرت کے ساتھ استغفار کی توفیق دے اور اپنے روزوں کا خاتمہ اسی پر کریں۔(آمین)

الوداع ماہ رمضان

انتالیسواں پیغام
الوداع ماہ رمضان! 
بہنو اور بھائیو! سورج روزانہ مشرق سے نکلتا ہے اور مغرب میں ڈوب جاتا ہے، اسی سے ماہ و سال بنتے ہیں، اسی طرح رمضان کا بابرکت مہینہ ہم پر سایہ فگن ہوا اور بڑی تیزی کے ساتھ رخصت ہوا چاہتا ہے، عید سر پر ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کو عید الفطر کی مبارکباد دی جائے یا ماہ مکرم کی جدائی پر آپ سے تعزیت کی جائے یقیناًدل غمزدہ ہے،آنکھوں میں آنسوہیں غم کے، جدائی کے۔ کسی کو خبر نہیں کہ رحمتوں کا موسم آئندہ نصیب ہوگا یا نہیں، میرے بھائیو! وداعی کے وقت ایک فریضہ ہم پر عائد ہوتا ہے:کہ عید الفطر کی نماز سے قبل ہر چھوٹے بڑے ،مرد و عورت مسلمان صدقۂ فطر ادا کریں، اس سے غفلت میں نہیں پڑنا چاہئے ورنہ عنداللہ سخت گنہگار ہونگے، اس کا مقصد حدیث میں بتایا گیا ہے کہ روزہ دار کے لغو و فحش باتوں(کے گناہ) سے تطہیر اور صفائی ہوجاتی ہے نیز مسکینوں کی خوراک کا انتظام ہوجاتا ہے،(ابو داؤد) گھر کے ہر فرد کی طرف سے ایک ایک صاع(تقریباً ڈھائی کلو)جو،کھجور،پنیر،چاول،گیہوں یا کشمش کا نکالا جانا ضروری ہے، صدقۂ فطر کی ادائیگی عید سے ایک یا دو دن پہلے بھی کی جاسکتی ہے، بعض صحابۂ کرام ایسا کرتے تھے، لیکن اس کا اصل وقت عید کی صبح سے نماز عید سے قبل تک ہے۔ مجبوری کی صورت میں صدقہ کی رقم بھی ادا کی جاسکتی ہے۔
ان شاء اللہ صدقۂ فطر کی ادائیگی سے ہمارے روزوں میں جو نقص ہوا ہوگا اللہ تعالیٰ معاف کردے گا، لیکن غور کیجئے کہ یہ مبارک ماہ جو ہم سے رخصت ہورہا ہے، کچھ پیغام دے کے جارہا ہے، اسکی پابندی ہی ہمیں کامیابی دلائے گی۔
۱۔ آپ نے رمضان میں نیکیوں کی جو مضبوط رسی بنائی ہے اسکو مت توڑئے گا، مکہ میں ریطہ بنت سعد نامی پاگل عورت تھی وہ پورے دن سوت کاتتی تھی اور شام میں توڑ دیتی تھی، قرآن میں وارد ہے:’’ اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا‘‘(النحل:۹۲) آپ نے اللہ سے جو عہد و پیمان کیا ہے اس کی پاسداری مرتے دم تک کرنی ہوگی۔
۲۔ رمضان کے بعد شیطان آزاد ہوجائیں گے لیکن آپ اسکے مکر سے اپنے کو محفوظ رکھئے گا، اسلئے کہ شیطان چاہتا ہے کہ اللہ کے یہ بندے ابلیس کی راہ پر چل کر جہنم خرید لیں، جب کہ آپ نے جنت خرید لی ہے، لہذا آپ دینی ذمہ داریوں کو ہرگز نہ بھولیں گے۔
۳۔ نمازوں کی پابندی جس طرح ہم نے رمضان میں کی ہے اسی انداز میں بقیہ مہینوں میں بھی کرنی ہوگی،اسلئے کہ نماز ہماری زندگی، قبر اور پل صراط میں نور کی طرح روشن رہیگا ان شاء اللہ، یاد رہے کہ نماز ہی ہمارے مال اور اولاد میں برکت کا سبب ہے۔
۴۔ رمضان کے بعد قرآن کریم سے بے اعتنائی نہیں ہونی چاہئے،خبردار! ان لوگوں میں سے نہ ہوجائیں جو صرف رمضان میں قرآن پڑھتے ہیں اور بقیہ ایام میں چھوڑے رہتے ہیں قرآن میں بزبان رسول اللہ ﷺ واردہوتا ہے’’اے میرے پروردگار! میری امت نے قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘(الفرقان:۳) نبی ﷺ بروز قیامت تارک قرآن کے خلاف مقدمہ دائر کریں گے، اللہ اکبر! لہذا ہمیں چاہئے کہ یومیہ قرآن کا کچھ حصہ تلاوت کرنے عادت ڈالیں۔
۵۔ کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتے رہیں،گھر سے نکلتے وقت،داخل ہوتے وقت، صبح و شام کی دعائیں وغیرہ کی پابندی کریں۔
۶۔ رمضان کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ ہم نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں، کہ جب بھی ہم معصیت کے متعلق سوچیں تو نیک ساتھی اس گناہ سے روک دے۔
۷۔ رمضان کے روزے کس کے قبول ہوئے اور کس کے نہیں؟ آپ خود فیصلہ کرسکتے ہیں: عمل کی قبولیت کے لئے ضروری ہے کہ اطاعت کا تسلسل ہو، لہذا آپ کوشش کریں کہ رمضان میں جو تبدیلیاں آپکی زندگی میں ہوئیں ان کو اور صیقل کیجئے اور شیطان کوہر موڑ پر شکست دیجئے۔
۸۔ رمضان کا اصل مقصد ہماری زندگیوں میں تقویٰ کا حصول ہے، اگر یہ تقویٰ محض رمضان کیلئے تھا تو سب بیکار ہے، اس کا اثر پوری زندگی میں باقی رہنا چاہئے۔
۹۔ ہم نے اپنی زبانوں کا روزہ رکھا،غیبت،چغلی،بیہودگی سے اپنے کو بچائے رکھا تو بقیہ ایام میں بھی اسکی حفاظت کرنی ہوگی، اپنے کانوں کو موسیقی اور برائیوں سے بچائے رکھا،آنکھوں کو روزہ رکھوایاتو یہ روزہ عمر بھر رکھوانا چاہئے۔
۱۰۔ آپ شوال کے چھ روزے ہرگز نہ بھولیں گے۔ ابو ایوب انصاریؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے رمضان کے ساتھ شوال کے چھ روزے رکھے، اس نے گویا پورے سال کا روزہ رکھا(مسلم) ماہ رمضان دس مہینوں کے برابر ہوا، ایک نیکی کا دس گنا اجر ہے، اور شوال کے چھ روزوں کا دو ماہ ہوا،اسطرح بارہ مہینے پورے ہوئے، یہ اللہ کا فضل عظیم ہے،آپ عید کے پورے شوال میں کسی بھی طرح روزہ رکھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کے ان پیغامات کی حفاظت کی توفیق بخشے۔آمین۔