Saturday 14 January 2012

رمضان اور تربیت اولاد(1

تیرہواں پیغام
                                    
رمضان اور تربیت اولاد(۱)
            
محترم حضرات! ماہ مبارک کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ تربیت پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے، ایک مسلمان اپنے نفس کی تربیت خود کرتا ہے، اپنے ماتحت بیوی بچوں کی تربیت میں لگ جاتا ہے، اپنے رب سے رجوع ہوتا ہے اور اللہ کی امانتوں کی پاسداری کا عہد کرتا ہے۔
نہایت قیمتی موقع ہے کہ لوگ اس ماہ میں اپنی اور بچوں کی تربیت پر دھیان دیں اور یاد رکھیں کہ اولاد، والدین کی گردنوں میں امانت ہیں اور اس امانت کے بارے میں باز پرس ہوگی، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے مومنو!اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن لوگ اور پتھر ہونگے‘‘(التحریم:۶)
نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور اس کی نگہبانی کے متعلق سوال ہوگا، امام اپنی رعایا کے متعلق جوابدہ ہوگا اور آدمی اپنے گھر کے افراد (اہل وعیال) کے متعلق جوابدہ ہوگا(بخاری)، گھر بچوں کا پہلا مدرسہ (اسکول) ہوتا ہے، اگر گھر میں تربیت ٹھیک رہی تو سماج اور اسکول دونوں کی آنکھ کا تارابن جائے گا، اگر گھر میں اسلامی تربیت کا فقدان ہے تو اس بچے کو نہ اسکول صحیح کر سکتا ہے اور نہ سماج، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:کتنے بد بخت ہیں وہ والدین جو اپنے جگر گوشوں کے ساتھ دنیا وآخرت میں کھلواڑ کرتے ہیں،ان کی جائز و ناجائز خواہش پوری کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس کی ہمت افزائی کر رہے ہیں،حالانکہ یہ اس کی توہین ہے، والدین اس کے گناہوں پر پردہ ڈال کر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ شفقت کا معاملہ کررہے ہیں،حالانکہ اس پر ظلم ہورہا ہے اور اس صورت میں والدین بچوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع ضائع کردیتے ہیں، دنیا اور آخرت میں اپنا حصہ کھو بیٹھتے ہیں اور وہ اخلاقی فساد کا شکار ہو جاتے ہیں،جس کا اصل سبب والدین ہی ہیں۔
روزہ دارو! اولاد کی پرورش کے دوران ہم سے بہت ساری غلطیاں ہوتی رہتی ہیں، جن سے پرہیز ضروری ہے: بچے کے رونے یا ضد کرنے پر جانوروں یا لوگوں کا نام لے کر ڈرانا جس سے بچے بزدل ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح بچے کو چوٹ لگنے پر ماں کا بلکنا اسے ہمیشہ کے لئے خوفزدہ کردیتا ہے۔ بچوں کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کرنا ، جس سے اس کی فطرت و شرافت تباہ ہوجاتی ہے۔بچوں کی ہر چھوٹی بڑی غلطیوں پر ڈانٹ ڈپٹ کرنا، یا معمولی غلطیوں پر ان کی پٹائی سے یا ان کے ضروری اخراجات نہ دینے سے بچے باہرنکلتے ہیں اور چوری نیز بروں کی صحبت اختیار کرکے اپنی زندگی خراب کرلیتے ہیں۔ بچوں کی عصری تعلیم پر خوب خرچ کرکے دینی تعلیم سے برگشتگی اختیار کرنا، یعنی ان کے لئے دینی تعلیم کا اہتمام نہ کرنے سے وہ اخلاقی و مذہبی حیثیت سے بے وقعت ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اولاد کے درمیان تفریق سے کام لینا یعنی کسی چیز کو دینے میں برابر نہ بانٹنا، چاہے وہ محبت و شفقت ہو چاہے ہدیہ و تحفہ، اس سے آپس میں نفرت پھیلتی ہے۔ استطاعت کے باوجود بچوں اوربچیوں کی شادی وقت پر نہ کرنا،یہ خائن ہیں جو بچوں کے اندر بدبختی کا روگ پھیلاتے ہیں۔ غیراسلامی نام رکھنا۔ بچوں پر بددعا کرنا، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: بچوں پر بددعا نہ کرواس لئے کہ والدین کی دعا یا بددعا بچوں کے حق میں جلد قبول ہوجاتی ہے۔ (مسلم)۔ بچوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا، جس سے ان کی عزت نفس اور شجاعت متاثر ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان غلطیوں سے محفوظ رکھے اور اسلامی طریقے پر بچوں کی تربیت کی توفیق دے۔ آمین۔

No comments:

Post a Comment