Monday 9 January 2012

مانگو اپنے پروردگار سے***

اٹھارہواں پیغام
مانگو اپنے پروردگار سے*** 
محترم حضرات! دین میں دعا کی حیثیت اور مرتبہ نہایت بلند ہے، دعاؤں کے ذریعہ ہی رب کائنات کی بے مثل نعمتوں سے ہم سرفراز ہوتے ہیں اور بہت ساری مصیبتوں و پریشانیوں سے نجات بھی حاصل کرتے ہیں، رمضان المبارک کا مہینہ دعاؤں کے لئے بہترین موقع ہے، بندہ اس ماہ مبارک میں اللہ رب العالمین سے بہت قریب ہوجاتا ہے اور جب وہ اللہ وحدہ لاشریک کے آگے دست سوال دراز کرتا ہے تو کائنات کا رب شرف قبولیت سے نواز دیتا ہے۔
رمضان کے متعلق آیات کا خاتمہ دعاؤں پر ہوتا ہے، دیکھئے اللہ رب العالمین فرماتا ہے:’’ اور جب آپ ﷺ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں، تو میں ان سے قریب ہوں، پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب جب وہ مجھ کو پکاریں‘‘ ( البقرۃ: ۱۸۶)۔
روزہ دارو! دعا کرنا اللہ کی اطاعت ہے، اللہ فرماتا ہے (وقال ربکم أدعونی أستجب لکم) تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھے پکارو،ہر پکار کو قبول کروں گا۔ رسول اللہﷺ نے دعا کو عبادت قرار دیا ہے (ترمذی) نیز فرمایا: اللہ کے نزدیک سب سے مکرم شئی دعا ہے، (احمد، بخاری)۔ دعا مانگنے سے اللہ کا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے، نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: جو اللہ سے دعا نہیں مانگتا ، اس پر وہ غضبناک ہوجاتا ہے۔ (احمد، ترمذی)۔
بندہ جب اللہ سے دعا مانگتاہے تو اس کا اعتماد اور بھروسہ اللہ پر مضبوط ہوجاتا ہے، اس کی بندگی کا رنگ پکا ہوجاتا ہے، اس کی بے بسی ختم ہوجاتی ہے، اس لئے مومن کی دعا خالی نہیں جاتی، نبی ﷺ کا ارشاد ہے: مومن جب اللہ کی طرف متوجہ ہوکر مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے عطا کرتا ہے، کبھی فوراً دنیا میں دے دیتا ہے اور کبھی آخرت میں اس کے لئے ذخیرہ بنادیتا ہے۔ (احمد وصححہ الالبانی)۔
روزہ دارو! آپ دعائیں خوب مانگیں، گڑگڑائیں مگر اس کے شروط و آداب کا خیال رکھیں جن سے دعاؤں کے جلد قبول ہونے کی امید بڑھ جاتی ہے: (۱) سب سے اہم شرط یہ ہے کہ دعا مانگنے والا اس بات کا عقیدہ رکھے کہ اللہ کے سوا کوئی دعاؤں کو قبول نہیں کرسکتا۔ (۲) جلد بازی سے پرہیزہو۔ (۳) بھلائی کے لئے دعا کی جائے۔ (۴) اللہ کے متعلق حسن ظن ہو۔ (۵) دعا کے وقت دل کو بہکنے نہ دیں۔ (۶)پاک اور حلال غذا کا استعمال ہو۔
کچھ آداب کا لحاظ ضروری ہے: جیسے دعا سے پہلے اللہ کی حمد و ثنا۔ نبی ﷺ پرو درود و سلام۔ گناہوں اور کوتاہیوں کا اعتراف۔ خشوع و خضوع۔ گریہ وزاری ہو۔ عاجزی اور مسکین کی صورت ہو۔ دعا تین مرتبہ مانگی جائے۔ قبلہ رو ہوں۔ باوضو ہوں۔ اللہ کے اسماء و صفات کے ذریعہ ہو جیسے ’’ یَاحَیُّ یَا قَیُّومُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیْثُ‘‘۔ اپنے اعمال کو وسیلہ بنائیں۔ آواز پست ہو اور سب سے بڑھ کر اخلاص ہو، اس لئے دعاؤں میں ریاکاری آپ کے عمل کو ضائع کردے گی۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہم تمام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ دعائیں کرنے کی توفیق دے اور اے اللہ ہماری ہرجائز آرزو پوری کردے اور ہمارا انجام اپنے محبوبوں کے ساتھ فرما۔ والحمدللہ رب العالمین۔

No comments:

Post a Comment