Sunday 8 January 2012

روزہ کے احکام ومسائل (۲

اٹھائیسواں پیغام
روزہ کے احکام ومسائل (۲
افطار پارٹی کاحکم: اگرروزہ داروں کو اخلاص اور اجروثواب کی نیت سے افطار کرایا جائے تویہ بڑے اجروثواب کا کام ہے۔ حضرت زید بن خالدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا یا کسی غازی کو سامان جہاد دیکر تیار کیا، اس کواسی کے مثل اجر ملے گا (بیہقی)
افطار کرانے کی شکل انفرادی ہو یا ا جتماعی، خواہ مسجد میں افطار کا سامان بھیج کر ہو یا روزہ داروں کے گھر، اگر خلوص شامل ہے تونہایت بابرکت اور قابل ثواب عمل ہے۔ لیکن اگر مقصد ریاء ونمود ہے ، بے نمازیوں ، روزہ خور نیتاؤں اور غیر مسلم لیڈروں کی دعوت افطار کی جو رسم چل پڑی ہے وہ بظاہر سیاسی قسم کی دعوت ہوتی ہے اور اس فضیلت والے افطار سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
بام اور وکس کا استعمال: سردی یازکام میں بام او روکس کے سونگھنے سے روزہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا یہ خوشبو کی مانند ہے جس سے دل ودماغ کو سکون ملتا ہے۔
روزہ کی حالت میں خون بدلنا (ڈایلیسس): روزہ کی حالت میں گر دہ کے مریض کا خون بدلوانے (ڈایلیسس) سے روزہ ٹوٹ جائے گا اور وہ روزہ قضاء کرے گا کیونکہ نیا خون اس کے لئے غذا کے قائم مقام ہے۔
جنبی کا صبح صادق کے بعد غسل کرنا: اگرکوئی جنبی اذان فجرتک غسل نہ کرسکا تواس سے اس کے روزے پر اثر نہیں پڑے گا ۔ حضرت عائشہؓ اور ام سلمہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بعض بیویوں سے ہم بستری کی وجہ سے جنبی ہوتے اورصبح صادق ہوجانے کے بعد غسل فرماتے او رروزہ رکھتے (بخاری ومسلم) لیکن غسل میں اتنی تاخیر نہ ہو جس سے نماز فجر فوت ہوجائے۔
زبردستی کوئی روزہ ختم کرادے اُس روزہ کا حکم: اگرشیطان صفت لوگوں نے کسی کو لٹا کر یادھمکی دیکر روزہ دار کو کھلا پلادیا ہو، ایسی صورت میں اس کا روزہ صحیح ہوگا ، اس پر نہ قضاء ہے اور نہ ہی کفارہ، وہ مرفوع القلم میں شمار ہوگا، رسول اللہ ﷺ کا ارشادہے : اللہ نے میری امت سے خطاء، نسیان اور جس پر اسے مجبورکیا گیاہو، وہ معاف کردیا ہے۔ (ابن ماجہ)
روزہ اور قضاء کی طاقت نہ رکھنے والے کا کفارہ: رمضان کے روزے نہ رکھ سکنے والا اگر قضاء کی بھی قدرت نہ رکھے تووہ ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے گا حضرت انسؓ ایک سال کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے ، توانہوں نے ثرید کی ایک لگن تیار کی اور تیس مسکینوں کو بلاکر پیٹ بھر کھلادیا ۔ اگر بوڑھا یا بیمار آدمی کھلانے کی بجائے غلہ دینا چاہیے تواس کی کوئی حد وار د نہیں ہے ، آپ جس کو فدیہ دے رہے ہیں، اس کو اتنا غلہ دیں کہ ایک وقت پیٹ بھر کر کھالے، مگربہتر ہے کہ پکاکر کھلایا جائے ۔
(مستفاداز فتاوی رمضان ۔ڈاکٹر فضل الرحمن مدنی حفظہ اللہ)

No comments:

Post a Comment