Wednesday 18 January 2012

روزہ اور اخلاص

گیارہواں پیغام
                                                  
روزہ اور اخلاص
مسلمانو! ہم جو کچھ عبادت کرتے ہیں، ان کی قبولیت کا دار ومدار دو شرطوں پر ہے:(۱) اخلاص (۲) رسول اللہ ﷺ کی متابعت۔
روزہ بڑی عظیم عبادت ہے، اگر یہ دونوں شرطیں ہمارے روزوں سے غائب ہیں یا کوئی ایک، تو ساری محنت رائیگاں چلی جائے گی، اخلاص ہماری ہر عبادت اور ہر عمل کے لئے لازمی شئے ہے، آیئے دیکھتے ہیں کہ اخلاص کسے کہتے ہیں: اخلاص نام ہے اعمال وعبادات کا ہر طرح کے عیب و آمیزش سے پاک وصاف ہونا۔
بندہ جب تہیہ کرلیتا ہے کہ اس کا ہر عمل اللہ کے حکم و اس کے ارادے کے موافق ہوگا،نفسانی آمیزش سے پرہیز کرے گا، وہ مخلص کہلائے گا، روزہ بھی عموما اخلاص سے پرہوتا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک سے زیادہ پیاری ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بندہ اپنا کھانا پینا اور تمام خواہشات میرے لئے ترک کردیتا ہے ،اس کا روزہ صرف میرے لئے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔(بخاری)
اس حدیث میں روزہ دار کا اخلاص صاف جھلکتا ہے، اگر یہی کھانا پینا روزہ دار کسی اورکے لئے چھوڑے ، مثلا لوگوں کو بتانے کے لئے، شہرت کے لئے کہ روزہ رکھ رہا ہوں (حالانکہ ایسا کم ہوتا ہے) پھر وہ ریاکاری ہوگی، خلوص کا نام ونشان نہ ہوگا، علماء نے لکھا ہے : روزہ ایک خاموش عبادت ہے بندہ اور رب کے درمیان ایک راز کی مانند ہے جہاں صرف اخلاص ہے، ریاء کو داخل ہونے کا موقع شاذ ونادر ہی ملتا ہے۔
اخلاص نہایت پاکیزہ اور محبوب شئی ہے، مخلص شخص سماج اور خاندان میں اثر انداز ہوتا ہے اور ایسے گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے، جس پر چل کر نسلیں نجات و کامرانی کی حقدار بن جاتی ہیں،مخلص بندہ نیکی کے سارے کام دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوکے کرتا ہے ، جب وہ دائیں ہاتھ سے کسی کو صدقہ دیتا ہے تو بائیں ہاتھ کو خبر بھی نہیں ہوتی،اشعب بن جبیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ کی ایک گلی میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی تو اس نے پوچھا تمہارے خاندان میں کتنے افرادہیں؟ اشعب جو نہایت مسکین آدمی تھے، افراد کی تعداد بتائی۔ اس کے بعد اس شخص نے اشعب سے کہا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے اہل وعیال کے کھانے پینے اورکپڑے کا برابر انتظام کرتارہوں جب تک تم زندہ ہو، کہا: کس نے حکم دیا ہے ،جواب ملا : میں نہیں بتا سکتا، پھر میں نے کہا: میں اس کی نیکی پر بیحد ممنون ومشکور ہوں، وہ شخص گویا ہوا: جس نے مجھے حکم دیا ہے وہ تمہارے شکریہ کے جواب سے معذور ہے، اشعب کہتے ہیں: میں برابر وظیفہ (خرچ) لیتا رہا، یہاں تک کہ خالد بن عبداللہ کا انتقال ہوا، لوگوں کی بھیڑ لگ گئی میں بھی جنازے میں شریک تھا کہ اس شخص سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا:اے اشعب! یہی وہ ہستی تھی جو تمہارے نان ونفقہ کا انتظام کرتی تھی اور میں تمہیں دیا کرتا تھا(سیر أعلام النبلاء للذھبی)۔
پردے کے پیچھے یہ وہ صاحب خیر تھے جو مدینہ میں بے شمار خاندانوں کی کفالت کرتے تھے اور لوگوں کو اس کی خبر بھی نہ تھی، یہ صرف ان کا خلوص تھا۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمام اعمال و عبادات میں اخلاص کی توفیق دے۔(آمین)

No comments:

Post a Comment