Sunday 8 January 2012

زکاۃکن چیزو ں میں اور کتنا واجب ہے

پچیسواں پیغام
زکاۃکن چیزو ں میں اور کتنا واجب ہے

محترم حضرات!زمین سے پیدا ہونے والا غلہ اور میوہ، قدرتی چراگاہوں میں چرنے والے چوپائے، سونا اور چاندی اور سامان تجارت میں زکاۃ واجب ہے۔ان چاروں اقسام میں مقررہ نصاب ہے جس سے کم پر زکاۃ واجب نہیں ہوتی ۔ غلہ و میوہ کا نصاب پانچ وسق ہے، اور ایک وسق کی مقدار ساٹھ صاع ہے ۔ لہذا کھجور ، منقہ ، گیہوں، چاول ، جو، وغیرہ کا نصاب رسول اللہ ﷺ کے صاع کے برابر تین سو صاع ہے( ایک صاع تقریباً ڈھائی کلو کی مقدار کے برابر ہے اس طرح تین سو صاع کی مقدار تقریباً ساڑھے سات سو کلو ہے جو غلہ و میوہ کا نصاب ہے)۔
اگر درخت اور کھیتی کی سیرابی کے لئے خرچ کی ضرورت پیش نہ آئے، جیسے بارش ، نہر یا بہتی ندی کے ذریعہ سیرابی ہوگئی تو اس سے پیدا شدہ غلہ کا دسواں حصہ بطور زکاۃ نکالنا ہوگی ۔اور اگر اس کی سیرابی کے لئے خرچ کی ضرورت پیش آئے جیسے پن چکی اور بورویلوں وغیرہ کے ذریعہ تو ایسی پیداوار کا بیسواں حصہ بطور زکاۃ ادا کرنا ہوگی۔ 
چاندی کا نصاب ایک سو چالیس مثقال ہے اورسونے کا نصاب بیس مثقال ہے۔محققین نے ایک مثقال کی مقدار سوا چار گرام بتلائی ہے جس کے اعتبار سے بیس مثقال سونے کی مقدار ۸۵ گرام ہے جو سونے کا نصاب ہے اور ایک سو چالیں مثقال چاندی کی مقدار ۵۹۵ گرام ہے جو چاندی کا نصاب ہے۔سونا اور چاندی میں جو بھی نصاب کا مالک بن جائے اس پر چالیسواں حصہ کی زکاۃ فرض ہے اس شرط کے ساتھ کہ اس کی ملکیت پر ایک سال گزرجائے۔
سونے اور چاندی ہی کے حکم میں نقدی (کرنسی) ہے جن کو آج کے دور میں لوگ استعمال کرتے ہیں چاہے وہ ریال ہوں یاروپئے ہوں، ڈالر ہوں یا کچھ اور نام رکھ لیا گیا ہو،جب ان کی قیمت چاندی یا سونے کے نصاب کو پہنچ جائے اور اس کی ملکیت پر سال گزر جائے تو ان میں زکاۃ واجب ہو جائے گی۔
نقدی ہی کے حکم میں خواتین کے زیورات بھی ہیں اگر وہ سونے یا چاندی کے ہوں اس شرط کے ساتھ کہ وہ نصاب کو پہنچ جائیں اور ان پر ایک سال گزر جائے تو ان پر زکاۃ واجب ہوگی اگر چہ وہ استعمال کی خاطر ہوں۔یہی علماء کا صحیح ترین قول ہے کیو نکہ رسول اللہ ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے ایک خاتون کے ہاتھ میں دو کنگن دیکھے توآپ نے دریا فت فرمایا : کیا ان کی زکاۃ اداکرتی ہو؟ اس نے کہا : نہیں توآپ نے فرمایا ’’کیا تمہیں اس بات سے خوشی ہوگی کہ ان دونوں کنگن کے بدلہ اللہ تمہیں قیامت کے دن آگ کے کنگن پہنائے؟ تو ان دونوں کو اس نے نکال کر ڈال دیا اور کہا :یہ دونوں اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہیں ۔(ابوداؤداور نسائی نے سند حسن سے اس کو بیان کیا ہے)
اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اس بات کا ثبوت ملتاہے کہ آپ سونے کی پازیب پہنتی تھیں چنانچہ آپ نے ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! کیا یہ ’’کنز ‘‘خزانہ میں شمار ہے تو آپ نے فرمایا ’’جو زکاۃ کے نصاب کو پہنچ جائے ، پھر اس کی زکاۃ ادا کردی جائے تو وہ کنز (خزانہ ) میں شمار نہیں‘‘۔(ابوداؤد) اسی معنی کے دوسری احادیث بھی آئی ہیں۔
سامان تجارت سے مراد وہ مال جو تجارت کی غرض سے رکھا گیا ہو لہذا سال کے اختتام میں اس کی قیمت کا حساب لگایا جائے اور اس کی پوری قیمت کا ڈھائی فیصد بطور زکاۃ ادا کیا جائے چاہے اس کی قیمت اس کے دام سے زیادہ ہو یا کم ، کیونکہ سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں مال تجارت میں سے زکاۃ نکالنے کا حکم فرماتے تھے ۔(ابوداؤد)
اس ضمن میں فروخت کی غرض سے رکھی ہوئی زمینیں ، عمارتیں ، گاڑیاں ، پانی کے موٹر پمپ اور وہ اشیاء داخل ہوجاتی ہیں جن کو فروخت کرنے کے لئے رکھا جائے ، البتہ وہ عمارتیں جو کرائے پر دی گئی ہوں اور بیچنے کے لئے نہ ہوں تو اس کے کرایہ میں ایک سال گزرنے پر زکاۃ واجب ہو گی، اگر ذاتی مکان ہو تو اس پر کوئی زکاۃ نہیں کیونکہ وہ مال تجارت میں شامل نہیں ۔اسی طرح شخصی گاڑیوں پر بھی زکاۃ نہیں اس لئے کہ ان کو خرید نے والے نے اپنے ذاتی استعمال کے لئے خریداہے ۔ اگر کرائے پر دی ہوئی گاڑی کے مالک کے پاس کرائے یا کسی اور ذریعہ سے اتنے پیسے جمع ہو جائیں جو نصاب کو پہنچ جائیں تو ایک سال گزر نے پر اس میں زکاۃ واجب ہوجائے گی چاہے وہ خرچ کے لئے اٹھا رکھا ہو ، شادی کے لئے جمع کررکھا ہو یا کوئی زمین کے خرید نے کی نیت ہو یا قرض کی ادائیگی کا ارادہ ہو یا کوئی اور مقصد ہو ۔ شریعت کی عمومی دلیلیں ایسی صورت حال میں زکاۃ کے واجب ہونے کو بتلاتی ہیں ۔ اور علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق قرض زکاۃ کو مانع نہیں ہے ۔
اسی طرح جمہور علماء کے پاس یتیموں اور پاگلوں کے مال میں بھی زکاۃ واجب ہے اگر اس پر سال مکمل ہوجائے ۔ان کے ذمہ دار حضرات پر ضروری ہے کہ سال کی تکمیل پر ان کے مال کی زکاۃ نکالیں ۔اس کی دلیل وہ عام احادیث ہیں جو اس ضمن میں آتی ہیں جس طرح معاذ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب ان کو یمن کی طرف بھیجنے لگے تو فرمایا’’ یقیناًاللہ نے ان کے مالوں میں زکاۃ کو فرض کیا ہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے اور ان کے غریبوں کو دی جائے‘‘۔(متفق علیہ)
زکاۃ اللہ کا حق ہے ، جو اس کے مستحق نہیں ہیں ان کو یہ دینا جائز نہیں ، مسلمان پر واجب ہے کہ اس کے مستحقین تک اس کو پہنچا دے کیونکہ وہی اس کے حق دار ہیں ۔ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں زکاۃ کے مستحقین کو بیان فرمادیا چنانچہ اس کا فرمان ہے ’’صدقہ صرف فقیروں کے لئے ہے اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پر چائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لئے اور اللہ کی راہ میں اورمسافروں کے لئے ۔ فرض ہے اللہ کی طرف سے وہ اللہ علم و حکمت والا ہے ‘‘ (التوبہ:۶۰)
اللہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو دین کی سمجھ عطا فرمائے اور معاملات میں راست بازی کی توفیق دے(آمین)

No comments:

Post a Comment