Wednesday 18 January 2012

روزہ کے احکام ومسائل (1)

نواں پیغام
                            
روزہ کے احکام ومسائل (1)
محترم حضرات! روزہ کے بعض اہم مسائل آپ کی خدمت میں پیش کئے جارہے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
ارکان صوم: روزہ کے د و ارکان ہیں جن کے بغیر روزہ صحیح نہ ہوگا:
(
۱) سچی نیت اور اخلاص۔ لہٰذا روزہ کے لئے علیحدہ نیت ضروری ہے اور فجر سے پہلے نیت کرلینی ہوگی۔ (۲) صبح صادق سے لیکر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور روزہ کو توڑنے والی تمام چیزوں سے پرہیز کیا جائے پھر رات (غروب آفتاب ) تک اپنے روزوں کو پورا کرو (البقرہ:۱۸۷)
شرائط صوم: (۱) مسلمان ہونا: غیرمسلم کو روزے کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔ (۲) عاقل ہونا : پاگل پرروزہ فرض نہیں ۔ (۳) بالغ ہونا: چنانچہ نابالغ بچوں اور بچیوں پر رمضان کے روزے فرض نہیں۔ البتہ انہیں ترغیب دینی چاہیے۔ (۴) تندرست ہونا: چنانچہ جو بیمار ہو اس کے لئے اجازت ہے کہ روزہ چھوڑدے اور اس کی بعد میں قضاء کرلے ۔ (۵) مقیم ہونا: یعنی مسافر کے لئے بھی چھوٹ ہے کہ وہ روزہ حالت سفرمیں چھوڑسکتا ہے، گھرپہنچنے پر اس کی قضا کرے گا ۔ (۶) عورتوں کا حیض ونفاس سے پاک ہونا: چنانچہ اگر خواتین حیض (ماہواری) ونفاس (بچہ ولادت کے بعد کاخون ) سے ہوں، توان کے لئے روزہ چھوڑنا ضروری ہوگا جس کی وہ بعدمیں قضا کریں گی، اس طرح جس خاتون کو نومولود کو بحالت روزہ دودھ پلانے میں دقت آرہی ہو اسے بھی اجازت ہے کہ روزہ چھوڑدے اور بعدمیں اس کی قضا کرے۔
بغیرسحری کا روزہ : کسی نے سحر ی نہیں کھائی تواس کا روزہ ہوجائے گا مگرسحری کھانا سنت مؤکدہ ہے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ہمارے روزوں اوراہل کتاب کے روزوں کے درمیان سحری کھانے کا فرق ہے۔ (مسلم) دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں : سحری کرواگرچہ ایک گھونٹ پانی سے ہی ہو(صحیح الجامع الصغیر ۲۹۴۲) اس لئے بلاوجہ سحری ترک نہیں کرنی چاہیے اوراہل کتاب کی مشابہت سے بچنا چاہیے۔
اذان کے وقت سحری کھاتے رہنا: اگرکوئی شخص تاخیر سے اٹھے اور کھانا شروع کرے کہ اذان ہونے لگے توجواس کے برتن میں ہے بقدر ضرورت کھاپی سکتا ہے ، جیسا کہ ابوہریرہؓ کی حدیث میں ہے جب تم میں سے کوئی اذان فجر سنے اس حال میں کہ برتن اس کے ہاتھ میں ہو تووہ اس کو نہ رکھے یہاں تک کہ اس سے اپنی ضرورت پوری کرلے (ابوداؤد، وصححہ الألبانی) یہ مجبوری کی صورت میں ہے، صبح صادق کے طلوع ہوجانے کے بعد ایسی عادتوں سے پرہیز کرنا چاہیے اور اذان شروع ہونے سے قبل کھانا پینا بندکردینا چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مشکوک کو چھوڑکر غیر مشکوک کو اختیار کرو(ترمذی)
(
مستفاد از کتاب فتاوی رمضان: ڈاکٹر فضل الرحمن مدنی حفظہ اللہ)

No comments:

Post a Comment