Saturday 14 January 2012

رمضان اور تربیت اولاد(2

چودہواں پیغام
                              
رمضان اور تربیت اولاد(۲)

محترم حضرات! مذہب اسلام نے بچوں کی تربیت سے متعلق رہنما اصول مرتب کئے ہیں، جن پر عمل پیرا ہوکر ہم سماج کو ایک شائستہ، غیور اور مہذب نسل دے سکتے ہیں اور جس کی آج سخت ضرورت ہے، آئیے ملاحظہ کریں کہ کن راستوں پر چل کر یہ نتیجہ حاصل کرسکتے ہیں:
نیک بیوی کا انتخاب: بیوی، بچوں کی ماں ہوتی ہے اور ان پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے،شادی کے لئے اخلاق مند اور دیندار خاتون کا انتخاب ہونا چاہئے، أبوالاسود الدؤلی اپنے بچوں سے مخاطب ہوتے ہیں: بیٹو! میں نے تم پر بچپنے، جوانی اور پیدا ہونے سے پہلے بھی احسان کیا ہے، بیٹوں نے پوچھا: آپ نے ہماری پیدائش سے قبل کیا احسان کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا:میں نے تمہارے لئے ایسی ماؤں کا انتخاب کیا جودیندار اور شریف تھیں۔
اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ نیک اولاد کے لئے دعا کرنی چاہئے، جو آپ کے لئے ذخیرۂ آخرت بن سکے۔ جب بچے بڑے ہوجائیں تو ان کو بعض ذمہ داریا ں سپرد کرنی چاہئیں، جیسے گھر کی نگہبانی، مہمانوں کی ضیافت، سودا سلف لانے کی ذمہ داری، کمزوروں کی مدد، رفاہی اداروں کے ساتھ تعاون، یہ ساری چیزیں بچوں کے اندر خود اعتمادی لاتی ہیں اور ذمہ داری کا احساس پیدا کرتی ہیں۔ بچوں کے ساتھ ان کی عمر کے اعتبار سے معاملہ کرنا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ بچو ں کے بڑا ہونے پر بھی چھوٹوں جیسا رویہ ان کے ساتھ اختیار کیا جائے، اس لئے کہ عمر کے ساتھ ان کی فکر بھی پروان چڑھتی ہے۔ بچوں کے درست مزاج کے لئے ضروری ہے کہ والدین خصوصا باپ بچوں کے ساتھ گھر میں نشستیں کریں، سبق آموز قصے سنائیں اور ان سے محبت و انسیت کا اظہار کریں۔ باپ کو چاہئے کہ وہ بچوں کے احوال پر نظر رکھے، دور سے ان کی نگرانی کرے، ان کے ٹیلی فون (موبائل) اورجیب کی تلاشی اس انداز میں ہو کہ بچہ نہ جان سکے، تاکہ غلط عادتوں کی اصلاح ہو سکے۔
میرے بھائیو! یہ منظر ہر گھر میں دیکھنے کو ملے گا کہ جب ماں بچوں پر سختی کرتی ہے تو باپ نرم پڑجاتا ہے اور جب باپ بچوں پر برستا ہے تو ماں نرم پڑ جاتی ہے، مثال کے طور پر بچہ غلطی کرے اور باپ اس کی پٹائی کردے تو وہ ہمیشہ سزا کے خوف سے باپ سے چھپتا پھرتا ہے، ایسی حالت میں ماں بچے کو آغوش میں لے کر اس کی غلطی بتاتی ہے اور آئندہ باز رہنے کی تلقین کرتی ہے، تو بچہ اپنی غلطی پر نادم ہوتا ہے اور والدین کی اطاعت کرتا ہے، یہ طریقہ تربیت کا مثالی طریقہ ہے۔ کبھی سزا کے ذریعے بھی تربیت کی جاتی ہے لیکن اصل یہ ہے کہ والدین بچوں کے معاملات میں نرمی سے کام لیں، جب ایک ہی غلطی بار بار دہرائی جائے تو اس پرسزا دی جائے، مگر تنہائی میں، لوگوں کے سامنے نہیں اور ایک حد میں پٹائی ہو، نفسیاتی سزا بھی دی جاسکتی ہے، جیسے بچوں کی تعریف نہ کرنا ، یا ان کو تحفوں سے محروم رکھنا ۔ گھر میں والدین ایک لائبریری قائم کریں جس سے بچے استفادہ کریں اور وقت کے ضیاع سے بچیں، نیز وقتا فوقتا بچوں کے درمیان انعامی مسابقے کرائے جائیں، جس سے ان کی تعلیمی رغبت برقرار رہے۔ والدین چاہتے ہیں کہ بچے ان کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک کریں، تو بچوں کو نیکی پر ابھاریں، ان کے ہر کام پر حوصلہ افزائی اور شکریہ ادا کرتے رہیں، بعض غلطیوں کو نظر انداز کردیا کریں، ہر لمحہ ٹوکنا اور مناسب وقت کا انتظار کئے بغیر نصیحت بسا اوقات بچوں کو باغی بنا دیتی ہے۔ امام سفیان ثوری ؒ کی ماں اپنے بیٹے سے کہتی تھیں: بیٹا تو صرف پڑھ، علم حاصل کر، تیرے اخراجات کے لئے میرا چرخا چلانا کافی ہے، یتیمی کی حالت میں سفیان ثوری پلے بڑھے اور وہ بھی اپنی ماں کی محنت سے، آگے چل کر آپ نے ایک عظیم امام اور محدث کی حیثیت سے شہرت پائی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان زریں اصولوں کے مطابق بچوں کی تربیت کی توفیق دے۔

No comments:

Post a Comment