Saturday 14 January 2012

خوشیوں کی بشارت

سترہواں پیغام

             خوشیوں کی بشارت 
ہم میں سے کون نہیں چاہتا کہ وہ ہمیشہ خوش رہے، اسی لئے خوشی کو انسان کی شدید ترین ضرورت قرار دیا گیا ہے، جو اس کو سکون عطاکرتی ہے، اس کے جسم و جان کو چین و قرار بخش کر تفکرات اور غموں سے نجات دیتی ہے، لیکن بہت کم ہیں جو سچی خوشی اور سعادت حاصل کرپاتے ہیں۔
حضرات! خوشی اس لذت کا نام ہے جو محبوب کو پالینے کے بعد دل میں پیدا ہوتی ہے، یا خواہشوں کی تکمیل پر جو کیفیت دل میں جنم لیتی ہے، اسے فرح و سرور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
رمضان کا یہ مہینہ مسلمانوں کے لئے ڈھیر ساری خوشیاں لے کر آتاہے، اللہ کے مومن بندے اللہ کے فضل وانعام، برکت و رحمت اور ہدایت و مغفرت پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں، یہ خوشی روح افزا بن کر ان کے دلوں کو اطمینان اور سینوں کو ٹھنڈک عطا کرتی ہے، یہی سچی خوشی ہے اور سعادت و کامرانی کا ذریعہ ہے، اگر ہدایت نہ ملے اور رحمت کی طلب نہ ہو بلکہ دنیاوی زیب و زینت اور دولت وآرائش پر خوشی کا اظہار کرنے والے سچی خوشی نہیں پاسکتے، محض عارضی اور فانی ہے۔
اصل خوشی اور حقیقی سعادت تو یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرے، ایمان کو سلامت رکھے، قرآن و سنت کا خوگر بنے، علوم شرعیہ کا اہتمام کرے، اس لئے کہ جہالت غم و مصیبت کا سب سے بڑا سبب ہے اور اس سے بڑی جہالت کیا ہوسکتی ہے کہ مسلمان اللہ کے احکامات سے بے خبر رہے۔
روزہ دارو! یہ خوشی اور سعادت اہل ایمان کے حصے میں آئی ہے اور بڑے خوش نصیب ہیں اللہ کے روزہ دار بندے جن کے لئے رسول اللہﷺ نے خوشیوں کی بشارت دی ’’ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں(۱) جب وہ افطار کرتا ہے۔ (۲) جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے۔(بخاری ، مسلم)۔
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ روزہ دار کو افطار کے وقت جو خوشی میسر ہوتی ہے وہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے کہ وہ ان میں اپنا کھانا پینااور تمام تر خواہشات جو اس کے لئے عام دنوں میں حلال اور جائز ہوتی ہیں وہ اس سے رک جاتا ہے محض اللہ کی اطاعت کے لئے ،اور پھر اللہ کے حکم پر سورج ڈوبتے ہی افطار میں جلد ی کرتا ہے تو وہ روحانی سعادت سے سرشار ہوجاتا ہے، فرحت و مسرت کے مارے چہرے پر نورانی چمک رواں دواں ہوجاتی ہے، افطار کے وقت خوشی اس لئے بھی ہوتی ہے کہ اس وقت کی جانے والی دعاؤں کو اللہ قبول کرلیتا ہے، ابن ماجہ کی روایت ہے ’’ روزہ دار کی افطار کے وقت دعا رد نہیں کی جاتی‘‘۔
پھر رمضان کی راتوں میں وہ ساری چیزیں اس کے لئے حلال ہوجاتی ہیں جو دنوں میں حرام تھیں، یہ محض اللہ کا فضل اور اس کی نعمت ہے جو اللہ کی خوشنودی پر حاصل ہوتی ہے اور بندہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتا ہے، خیال رہے خوشی کا اظہاراتنا نہ بڑھے کہ اکڑپن، اتراہٹ اور کبر و گھمنڈ تک پہونچ جائے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے۔
دوسری اہم خوشی روزہ دار کو اس وقت حاصل ہوگی جب وہ رب ذو الجلال سے ملاقات کرے گا اور اپنے روزے کے ثواب کا ذخیرہ دیکھ کر وہ اچھل پڑے گا اور بروز قیامت اجر و ثواب کے ذخائر کی فکر کس کو نہیں ہوگی؟
اللہ فرماتا ہے: ’’ تم اپنے نفسوں کے لئے جو کچھ بھلائی یا نیکیاں آگے بڑھاتے ہو، اللہ کے پاس بہت زیادہ اجر و ثواب پاؤگے‘‘ (المزمل: ۲۰)۔
اے اللہ ہمارے دلوں کو ایمان، قرآن، سنت، علم اور روزے کی خوشیوں سے معمورکردے۔ (آمین)

No comments:

Post a Comment